وحشت میں بھی منت کش صحرا نہیں ہوتے
کچھ لوگ بکھر کر بھی تماشا نہیں ہوتے
جاں دیتے ہیں جاں دینے کا سودا نہیں کرتے
شرمندۂ اعجاز مسیحا نہیں ہوتے
ہم خاک تھے پر جب اسے دیکھا تو بہت روئے
سنتے تھے کہ صحراؤں میں دریا نہیں ہوتے
اک تار گریباں کا رہے دھیان کہ سب لوگ
محفل میں تو ہوتے ہیں شناسا نہیں ہوتے
غزل
وحشت میں بھی منت کش صحرا نہیں ہوتے
زہرا نگاہ