EN हिंदी
وحشت میں بھی منت کش صحرا نہیں ہوتے | شیح شیری
wahshat mein bhi minnat-kash-e-sahra nahin hote

غزل

وحشت میں بھی منت کش صحرا نہیں ہوتے

زہرا نگاہ

;

وحشت میں بھی منت کش صحرا نہیں ہوتے
کچھ لوگ بکھر کر بھی تماشا نہیں ہوتے

جاں دیتے ہیں جاں دینے کا سودا نہیں کرتے
شرمندۂ اعجاز مسیحا نہیں ہوتے

ہم خاک تھے پر جب اسے دیکھا تو بہت روئے
سنتے تھے کہ صحراؤں میں دریا نہیں ہوتے

اک تار گریباں کا رہے دھیان کہ سب لوگ
محفل میں تو ہوتے ہیں شناسا نہیں ہوتے