وحشت کے سو رنگ دکھانے والا میں
خود اپنی زنجیر بنانے والا میں
روز کنواں کھودوں تو پیاس بجھاؤں روز
دریاؤں سے پیاس بجھانے والا میں
ماضی کے بے برگ شجر پر بیٹھا ہوں
مستقبل کے گیت سنانے والا میں
کیسے ممکن ہے اپنوں پر وار کروں
دشمن کی چوٹیں سہلانے والا میں
اندر اندر درد کی لہریں اوپر سے
ہر دم ہنسنے اور ہنسانے والا میں
باغوں کو ویران بنانے والے لوگ
صحراؤں میں پھول کھانے والا میں
صدیوں سے مسموم ہوا کی زد پر ہوں
امیدوں کی فضل اگانے والا میں
دیکھو کب تک پاؤں جمائے رہتا ہوں
اونچی لہروں سے ٹکرانے والا میں
غزل
وحشت کے سو رنگ دکھانے والا میں
ماہر عبدالحی

