وہم ہے ہست بھی نیست بھی وہم ہے
دین و دنیا کی ہر اک گلی وہم ہے
کیسی آواز ہے کان پھٹ جائیں گے
ہے بھی یا یہ مرا دائمی وہم ہے
یہ تماشائے علم و ہنر دوستو
کچھ نہیں ہے فقط کاغذی وہم ہے
کھینچ لی ہے کماں میں نے اظہار کی
اب ذرا پھر کہو زندگی وہم ہے
اتنا حساس ہوں جتنا کوئی نہیں
مان لو نہ رضاؔ آخری وہم ہے

غزل
وہم ہے ہست بھی نیست بھی وہم ہے
نعیم رضا بھٹی