وہیں سے حد ملی ہے جا پہنچتا کوئے جاناں تک
رسائی سالکو جب عقل کر لے حد امکاں تک
جنوں میں دست لاغر کا ہے قبضہ اس بیاباں تک
جہاں سو منزلیں پڑتی ہیں دامن سے گریباں تک
مرے دست جنوں کا زور اور پھر زور بھی کیسا
کہ ہم راہ گریباں کھینچے لاتا ہے رگ جاں تک
تمہیں تو کھیل تھا نظریں ملا کر منہ چھپا لینا
یہاں نشتر ہزاروں رک گئے آ کر رگ جاں تک
کفن میں کوئی دیکھے آج ان ہاتھوں کی مجبوری
رہا کرتے تھے گردش میں جو دامن سے گریباں تک
غزل
وہیں سے حد ملی ہے جا پہنچتا کوئے جاناں تک
ابر احسنی گنوری