EN हिंदी
وہیں سے حد ملی ہے جا پہنچتا کوئے جاناں تک | شیح شیری
wahin se had mili hai ja pahunchta ku-e-jaanan tak

غزل

وہیں سے حد ملی ہے جا پہنچتا کوئے جاناں تک

ابر احسنی گنوری

;

وہیں سے حد ملی ہے جا پہنچتا کوئے جاناں تک
رسائی سالکو جب عقل کر لے حد امکاں تک

جنوں میں دست لاغر کا ہے قبضہ اس بیاباں تک
جہاں سو منزلیں پڑتی ہیں دامن سے گریباں تک

مرے دست جنوں کا زور اور پھر زور بھی کیسا
کہ ہم راہ گریباں کھینچے لاتا ہے رگ جاں تک

تمہیں تو کھیل تھا نظریں ملا کر منہ چھپا لینا
یہاں نشتر ہزاروں رک گئے آ کر رگ جاں تک

کفن میں کوئی دیکھے آج ان ہاتھوں کی مجبوری
رہا کرتے تھے گردش میں جو دامن سے گریباں تک