وہیں ہیں دل کے قرائن تمام کہتے ہیں
وہ اک خلش کہ جسے تیرا نام کہتے ہیں
تم آ رہے ہو کہ بجتی ہیں میری زنجیریں
نہ جانے کیا مرے دیوار و بام کہتے ہیں
یہی کنار فلک کا سیہ تریں گوشہ
یہی ہے مطلع ماہ تمام کہتے ہیں
پیو کہ مفت لگا دی ہے خون دل کی کشید
گراں ہے اب کے مئے لالہ فام کہتے ہیں
فقیہ شہر سے مے کا جواز کیا پوچھیں
کہ چاندنی کو بھی حضرت حرام کہتے ہیں
نوائے مرغ کو کہتے ہیں اب زیان چمن
کھلے نہ پھول اسے انتظام کہتے ہیں
کہو تو ہم بھی چلیں فیضؔ اب نہیں سر دار
وہ فرق مرتبۂ خاص و عام کہتے ہیں
غزل
وہیں ہیں دل کے قرائن تمام کہتے ہیں
فیض احمد فیض