وہی سر ہے وہی سودا وہی وحشت ہے میاں
اب بھی آ جاؤ کہ دل کی وہی خلوت ہے میاں
وسعت دید سمٹنے ہی نہیں پاتی ہے
چشم آہو سے ہمیں آج بھی نسبت ہے میاں
عمر جب ہجر مسلسل کی مسافت میں کٹی
یہ بھی کٹ جائے گی اک دن شب فرقت ہے میاں
کوئے دل دار میں باقی نہیں شوریدہ سراں
شہر دریوزہ گر کوچۂ شہرت ہے میاں
کیوں نہ ہم موجہ حیرت سے لپٹ کر سوویں
وصل اب تیرے لیے بھی تو مشقت ہے میاں
تم نے کیا دیکھے نہیں شمس و قمر نیزوں پر
جشن ظلمات پہ اب کون سی حیرت ہے میاں
فرق تاباں ہے ترا مطلع خورشید مگر
تیرے کاکل میں چھپی شام قیامت ہے میاں
دشت ہستی میں بہت آبلہ پائی ہے ندیمؔ
سرحد مرگ مسلسل تو اذیت ہے میاں
غزل
وہی سر ہے وہی سودا وہی وحشت ہے میاں
کامران ندیم