وہی ساحل وہی منجدھار مجھ کو
بنایا اس نے کھیون ہار مجھ کو
زباں کی دھار سے دیکھا ملا کر
لگی کچھ تیز کم تلوار مجھ کو
بٹھا رکھا مجھے سائے میں جس نے
گرانی تھی وہی دیوار مجھ کو
جنہیں ہے ناز اپنے فاصلوں پر
پکڑنے دیں ذرا رفتار مجھ کو
کبھی ہوتی نہ پھر لڑنے کی ہمت
ملی اب تک نہ ایسی ہار مجھ کو
کسی نے بھیج کر کاغذ کی کشتی
بلایا ہے سمندر پار مجھ کو
کبھی ڈوبی نہ تیری ناؤ راہیؔ
سکھایا تیرنا بے کار مجھ کو
غزل
وہی ساحل وہی منجدھار مجھ کو
غلام مرتضی راہی