وہی جوش حق شناسی وہی عزم برد باری
نہ بدل سکا زمانہ مری خوئے وضع داری
وہی مے کدہ ہے لیکن نہیں اب وہ کیف باری
گئے ہم مذاق لے کے مرا لطف بادہ خواری
ہو زبان جس کے منہ میں وہ نہ آئے انجمن میں
کہیں رکھ نہ دے ستم گر یہی شرط راز داری
کبھی ہنستے ہنستے رونا کبھی روتے روتے ہنسنا
کوئی کیا سمجھ سکے گا بھلا مصلحت ہماری
میں زمانے بھر کے طعنے نہ خموش ہو کے سنتا
جو جنون عشق ہوتا مرا فعل اختیاری
مئے عاشقی سے توبہ ہے جنون پارسائی
کہیں لے نہ ڈوبے واعظ تجھے زعم ہوشیاری
نہ پہنچ سکا جہاں تک کبھی پائے کبر و دانش
وہیں جرمؔ لے گئی ہے مجھے میری خاکساری
غزل
وہی جوش حق شناسی وہی عزم برد باری
جرم محمد آبادی