EN हिंदी
وہی جو راہ کا پتھر تھا بے تراش بھی تھا | شیح شیری
wahi jo rah ka patthar tha be-tarash bhi tha

غزل

وہی جو راہ کا پتھر تھا بے تراش بھی تھا

تنویر احمد علوی

;

وہی جو راہ کا پتھر تھا بے تراش بھی تھا
وہ خستہ جاں ہی کبھی آئینہ قماش بھی تھا

لہو کے پھول رگ جاں میں جس سے کھلتے تھے
وہی تو شیشۂ دل تھا کہ پاش پاش بھی تھا

بکھر گئی ہیں جہاں ٹوٹ کر یہ چٹانیں
یہیں تو پھول کوئی صاحب فراش بھی تھا

اٹھائے پھرتا تھا جس کو صلیب کی صورت
وہی وجود تو خود اس کی زندہ لاش بھی تھا

پلک جھپکنے میں کچھ خواب ٹوٹ جاتے ہیں
جو بت شکن ہے وہی لمحہ بت تراش بھی تھا

وہ حرف ناز کہ ریشم کا تار کہیے جسے
وہی تو دل کے لیے اک حسیں خراش بھی تھا

ادائے حسن جسے کہیے بے رخی تنویرؔ
اسی کی طرز تغافل کا راز فاش بھی تھا