EN हिंदी
وہی جنس وفا آخر فراہم ہوتی جاتی ہے | شیح شیری
wahi jins-e-wafa aaKHir faraham hoti jati hai

غزل

وہی جنس وفا آخر فراہم ہوتی جاتی ہے

بی ایس جین جوہر

;

وہی جنس وفا آخر فراہم ہوتی جاتی ہے
محبت کی حقیقت بھی مسلم ہوتی جاتی ہے

ہے ان کی آمد موسیقیت انداز کا دھوکا
پھواریں گنگناتی ہیں چھما چھم ہوتی جاتی ہے

تری چاہت نے ایسی روح زندہ پھونک دی مجھ میں
کہ میری زندگی شوق مجسم ہوتی جاتی ہے

سمٹ کر آ گئیں تاریکیاں بزم تصور میں
مسرت اور خوشی کی جوت مدھم ہوتی جاتی ہے

وفا کے ساز پر گاتا ہوں نغمے زندگانی کے
مری آواز آواز‌ دو عالم ہوتی جاتی ہے

یہ حال اپنا ہوا ہے شدت‌ خطرات پیہم سے
تحفظ کی جو تھی امید اب کم ہوتی جاتی ہے

ہمارا ساز دل یہ آج تم نے کس طرح چھیڑا
کہ ہر اک سانس اک آواز ماتم ہوتی جاتی ہے

جوانی اٹھ رہی ہے اور نظر مائل ہے جھکنے پر
یہ کیسی کشمکش سی ان میں پیہم ہوتی جاتی ہے