وہی ہمیشہ کا عالم ہے کیا کیا جائے
جہاں سے دیکھیے کچھ کم ہے کیا کیا جائے
گزرتے وقت نے دھندلا دیے سبھی چہرے
خوشی خوشی ہے نہ غم غم ہے کیا کیا جائے
بھٹک رہا ہوں لیے تشنگی سمندر کی
مگر نصیب میں شبنم ہے کیا کیا جائے
ملی ہے زخموں کی سوغات جس کی محفل سے
اسی کے ہاتھ میں مرہم ہے کیا کیا جائے
وہ ایک شخص جو کل تک تھا دوسروں سے خفا
اب اپنے آپ سے برہم ہے کیا کیا جائے
غزل
وہی ہمیشہ کا عالم ہے کیا کیا جائے
ندا فاضلی