EN हिंदी
وہی ہیں قتل و غارت اور وہی کہرام ہے ساقی | شیح شیری
wahi hain qatl-o-ghaarat aur wahi kohram hai saqi

غزل

وہی ہیں قتل و غارت اور وہی کہرام ہے ساقی

اجے سحاب

;

وہی ہیں قتل و غارت اور وہی کہرام ہے ساقی
تمدن اور مذہب کی یہ خونی شام ہے ساقی

کمال فن مرا اب تک نہاں ہے ایسے دنیا سے
کہ جیوں عبدالحئی میں اک الف گمنام ہے ساقی

میری گنگ و جمن تہذیب کی دختر ہے یہ اردو
اسے مسلم بنانے کی یہ سازش آم ہے ساقی

کریں گے امن کی باتیں دلوں میں بغض رکھیں گے
یہی رسم جہاں اور فطرت اقوام ہے ساقی

قد شاعر کے بدلے دیکھیے معیار شعروں کا
فقط اتنا مری غزلوں کا یہ پیغام ہے ساقی

عروض و علم کی تعلیم مجھ کو کب رہی حاصل
مرا استاد تو بس یہ غم ایام ہے ساقی

وہی غالب ہے اب تو جو خریدے شہرتیں اپنی
ربائی بیچنے والا عمر خیامؔ ہے ساقی

یہ غزلیں غیب سے نازل نہیں اشکوں کا حاصل ہیں
مرا یہ درد ہی سب سے بڑا الہام ہے ساقی