EN हिंदी
وہی ہے گردش دوراں وہی لیل و نہار اب بھی | شیح شیری
wahi hai gardish-e-dauran wahi lail-o-nahaar ab bhi

غزل

وہی ہے گردش دوراں وہی لیل و نہار اب بھی

اخلاق بندوی

;

وہی ہے گردش دوراں وہی لیل و نہار اب بھی
رہا کرتا ہے روز و شب کسی کا انتظار اب بھی

کبھی دن بھر تری باتیں کبھی یادوں بھری راتیں
تری فرقت میں جینے کے بہانے ہیں ہزار اب بھی

ترا جلوہ جو پا جاتی چمن میں جا کے اٹھلاتی
بھکارن بن کے بیٹھی ہے ترے در پر بہار اب بھی

خوشی ہر چند ہے طاری گئی غم کی گراں باری
چھلک جاتی ہیں آنکھیں عادتاً بے اختیار اب بھی

ہوئے ہیں منتشر ورنہ ستم گر تم سے کیا ڈرنا
ہماری ٹھوکروں میں ہے تمہارا اقتدار اب بھی

اگر اخلاقؔ سے ملتے محبت کے چمن کھلتے
نہ بنتی بزم یاراں ایک گاہ کار زار اب بھی