وہی گیسوؤں کی اڑان ہے وہی عارضوں کا نکھار ہے
یہ کسی کی شان ورود ہے کہ مری نظر کا وقار ہے
تری خود پسند نوازشیں مرا جی لبھا کے گزر گئیں
مگر اف یہ دیدۂ مطمئن جو گدائے راہ گزار ہے
ابھی کونپلوں میں وہ رس کہاں جو گلوں کا روپ بدل سکے
ابھی گل فروش کے ہاتھ سے ہمیں احتیاج بہار ہے
مری سادگی کے خلوص نے تجھے بخش دی وہ برہنگی
جو نفس نفس کی ہے تشنگی جو نظر نظر کی پکار ہے
یہی دل فریب تجلیاں مجھے دو جہاں سے عزیز ہوں
مگر اے جمال سحر نما مرا گھر جو تیرہ و تار ہے
غم ذات سے مری زندگی غم کائنات میں ڈھل گئی
کسی بزم ناز میں کھو کے بھی مجھے کائنات سے پیار ہے
غزل
وہی گیسوؤں کی اڑان ہے وہی عارضوں کا نکھار ہے
قتیل شفائی