EN हिंदी
وہی گیسوؤں کی اڑان ہے وہی عارضوں کا نکھار ہے | شیح شیری
wahi gesuon ki uDan hai wahi aarizon ka nikhaar hai

غزل

وہی گیسوؤں کی اڑان ہے وہی عارضوں کا نکھار ہے

قتیل شفائی

;

وہی گیسوؤں کی اڑان ہے وہی عارضوں کا نکھار ہے
یہ کسی کی شان ورود ہے کہ مری نظر کا وقار ہے

تری خود پسند نوازشیں مرا جی لبھا کے گزر گئیں
مگر اف یہ دیدۂ مطمئن جو گدائے راہ گزار ہے

ابھی کونپلوں میں وہ رس کہاں جو گلوں کا روپ بدل سکے
ابھی گل فروش کے ہاتھ سے ہمیں احتیاج بہار ہے

مری سادگی کے خلوص نے تجھے بخش دی وہ برہنگی
جو نفس نفس کی ہے تشنگی جو نظر نظر کی پکار ہے

یہی دل فریب تجلیاں مجھے دو جہاں سے عزیز ہوں
مگر اے جمال سحر نما مرا گھر جو تیرہ و تار ہے

غم ذات سے مری زندگی غم کائنات میں ڈھل گئی
کسی بزم ناز میں کھو کے بھی مجھے کائنات سے پیار ہے