وہی دن ہے خوف و ہراس کا وہی حال ابھی بھی ہے پیاس کا
وہی شام بستر مرگ سی وہی سلسلہ شب یاس کا
وہی آسماں ہے وہی فضا وہی نشہ شام پہ ہے بپا
وہی دور شہر سے ہے جگہ وہی سبز فرش ہے گھاس کا
نہ رہے بشیر و نذیر ہم نہ رہے فہیم و بصیر ہم
نہ دکھائی دیتا ہے دور کا نہ نظر ہی آتا ہے پاس کا
تجھے چاہیے جو کوئی خبر مری کاوشوں میں تلاش کر
مرا اعتبار ہے عقل پر میں اسیر کب ہوں قیاس کا
جو غنا کے سوت سے ہو بنا جو رضا کی سوئی سے ہو سلا
جو رنگا ہو شکر کے رنگ سے مجھے شوق ایسے لباس کا

غزل
وہی دن ہے خوف و ہراس کا وہی حال ابھی بھی ہے پیاس کا
جاوید جمیل