EN हिंदी
وہی دشت بلا ہے اور میں ہوں | شیح شیری
wahi dasht-e-bala hai aur main hun

غزل

وہی دشت بلا ہے اور میں ہوں

مظہر امام

;

وہی دشت بلا ہے اور میں ہوں
زمانے کی ہوا ہے اور میں ہوں

تجھے اے ہم سفر کیسے سنبھالوں
پہاڑی راستہ ہے اور میں ہوں

سکوت کوہ ہے اور سایۂ در
صدائے ماسوا ہے اور میں ہوں

مگر شاخوں سے پتے گر رہے ہیں
وہی آب و ہوا ہے اور میں ہوں

یہ ساری برف گرنے دو مجھی پر
تپش سب سے سوا ہے اور میں ہوں

کئی دن سے نشیمن خاک دل کا
سر شاخ ہوا ہے اور میں ہوں

پہاڑوں پر کہیں بارش ہوئی ہے
زمیں محو دعا ہے اور میں ہوں

مجھے بھی کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا
زمانہ سرپھرا ہے اور میں ہوں