وہی بے سبب سے نشاں ہر طرف
وہی نقش صد رائیگاں ہر طرف
وہی بے ارادہ سفر سامنے
وہی منزلوں کا گماں ہر طرف
وہی آگ روشن ہوئی خون میں
وہی خواہشوں کا دھواں ہر طرف
وہی سب کے سب ڈھیر ہوتے ہوئے
وہی تیز آندھی رواں ہر طرف
وہی بے گھری ہر طرف خیمہ زن
وہی ڈھیر سارے مکاں ہر طرف
وہی وقت کی دھوپ ڈھلتی ہوئی
وہی روز و شب کا زیاں ہر طرف
وہی شہر در شہر مصروفیت
وہی فکر کار جہاں ہر طرف
وہی جلتی بجھتی ہوئی زندگی
وہی کوشش رائیگاں ہر طرف
وہی بے ضرر سی زمیں چار سو
وہی سنگ دل آسماں ہر طرف

غزل
وہی بے سبب سے نشاں ہر طرف
سلطان اختر