EN हिंदी
وہاں کرتا رہوں گا اب یہاں کرتا رہوں گا | شیح شیری
wahan karta rahunga ab yahan karta rahunga

غزل

وہاں کرتا رہوں گا اب یہاں کرتا رہوں گا

مدحت الاختر

;

وہاں کرتا رہوں گا اب یہاں کرتا رہوں گا
رہوں گا میں جہاں بے تابیاں کرتا رہوں گا

کبھی میں آسمانوں کو زمیں پر لاد دوں گا
کبھی اپنی زمیں کو آسماں کرتا رہوں گا

ملی ہے زندگی مجھ کو تو کچھ کرنا ہی ہوگا
یقیں کرتا رہوں گا یا گماں کرتا رہوں گا

ملے گا ملک خوبی یا متاع سرگرانی
میں اپنے نام کا سکہ رواں کرتا رہوں گا

سناؤں گا کبھی قصے پرانے معرکوں کے
کبھی تصنیف تازوں داستاں کرتا رہوں گا

کروں گا کچھ جتن ان کو مثالی بھی بناؤں
اگر آباد تازہ بستیاں کرتا رہوں گا

میں خود ساحل پہ بیٹھوں گا کنار عافیت میں
اجارے پر سفینوں کو رواں کرتا رہوں گا

ہمیں اب نیند میں بھی جاگتے رہنا پڑے گا
کہ اس نے کہہ دیا ہے امتحاں کرتا رہوں گا

اگر لکھواؤ گے خط اس کو تم میرے قلم سے
یہ خدمت مفت میں اے مہرباں کرتا رہوں گا

رہے وہ گوش بر آواز یا سو جائے مدحتؔ
یہ میرا قصۂ غم ہے بیاں کرتا رہوں گا