وفاؤں کے ارادے وسعت منزل میں رہتے ہیں
پس و پیش ستم پیش و پس محمل میں رہتے ہیں
نقوش رہرو منزل رہ منزل میں رہتے ہیں
چکوروں کے نشان غم مہ کامل میں رہتے ہیں
غم عشق حقیقی بے اثر ہو جائے نا ممکن
نمایاں لغزش و رعشہ کف قاتل میں رہتے ہیں
جو ارماں لب پہ آ کے موجب قتل غریباں ہیں
وہی ارمان پوشیدہ دل قاتل میں رہتے ہیں
ہزاروں کشتیاں اس پار ہو جاتی ہیں ساحل کے
ہمارے واسطے طوفاں چھپے ساحل میں رہتے ہیں
ہمیشہ زندگی کٹتی رہی تاریک راتوں میں
نہ جانے جوار بھاٹے کیوں ہمارے دل میں رہتے ہیں
زمانہ کے حوادث سے نہ ڈر ہرگز مقابل آ
جو اہل دل ہیں دنیا میں وہی مشکل میں رہتے ہیں
مئے رنگیں سرود شوخ رقص دل ربا شب کو
سحر کو سوزؔ فرقت کے نشاں محفل میں رہتے ہیں
غزل
وفاؤں کے ارادے وسعت منزل میں رہتے ہیں
سوز بریلوی