وفا کی شمع جلاؤ کہ ہم غزل کہہ لیں
اداس رات ہے آؤ کہ ہم غزل کہہ لیں
کسی کے ساتھ گزارے ہوئے حسیں لمحو
تم آج یاد تو آؤ کہ ہم غزل کہہ لیں
بکھیرے جاؤ فضاؤں میں آج تم نغمے
سناؤ گیت سناؤ کہ ہم غزل کہہ لیں
تمہارے حسن کا چرچا ہے چاند تاروں میں
کبھی زمین پہ آؤ کہ ہم غزل کہہ لیں
کسی کی یاد کی مشعل جلا جلا کے اثرؔ
اندھیرا غم کا مٹاؤ کہ ہم غزل کہہ لیں

غزل
وفا کی شمع جلاؤ کہ ہم غزل کہہ لیں
مرغوب اثر فاطمی