EN हिंदी
وفا کی شان وہ لیکن کبھی مرے نہ ہوئے | شیح شیری
wafa ki shan wo lekin kabhi mere na hue

غزل

وفا کی شان وہ لیکن کبھی مرے نہ ہوئے

'امیتا پرسو رام 'میتا

;

وفا کی شان وہ لیکن کبھی مرے نہ ہوئے
ہے میری جان وہ لیکن کبھی مرے نہ ہوئے

انہیں کا ذکر غزل بھی وہی فسانہ بھی
سخن کی آن وہ لیکن کبھی مرے نہ ہوئے

نشہ ہے ان کی صدا کا کہ دھڑکنیں میری
رہا گمان وہ لیکن کبھی مرے نہ ہوئے

گلوں میں رنگ انہیں سے مہک مہک ان سے
چمن کی شان وہ لیکن کبھی مرے نہ ہوئے

وہی ہیں شمس و قمر بحر و بر مرے میتاؔ
ہیں اک جہان وہ لیکن کبھی مرے نہ ہوئے