EN हिंदी
وفا کیش و وفا نا آشنا کیا | شیح شیری
wafa-kesh-o-wafa-na-ashna kya

غزل

وفا کیش و وفا نا آشنا کیا

جلیل شیر کوٹی

;

وفا کیش و وفا نا آشنا کیا
محبت میں بلاؤں کا گلہ کیا

یہی دو ایک نغمے وہ بھی بے صوت
شکستہ ساز ہوں میری صدا کیا

نہ دیکھیں وہ ہمارے دل کی میت
دل مرحوم کا اب خوں بہا کیا

عداوت بجلیوں کی مول لے لی
چمن میں دو گھڑی کو میں ہنسا کیا

یہ عقل و آگہی کے خام دعوے
کبھی سوچا بھی یہ تو نے کہ تھا کیا

فقط اک زیر لب مبہم تبسم
ہماری آرزو کیا مدعا کیا

وفائیں عین ایمان محبت
محبت میں وفاؤں کا صلہ کیا

شناور کے لئے گرداب ساحل
غم بے چارگیٔ ناخدا کیا

ترا پرتو ہے جس کو حسن کہہ دیں
مقابل ہو ترے ہے دوسرا کیا

محبت کی یہ وہ منزل ہے جس میں
دوائے درد و درد لا دوا کیا

زمانے بھر نے نظریں پھیر لی ہیں
ہوئے ہو تم بس اک ہم سے خفا کیا

مجھے ساری خدائی مل گئی ہے
دیا ہے تم نے درد لا دوا کیا

جو سر مستی ہے ان آنکھوں میں پنہاں
جلیلؔ اس دخت رز میں وہ مزا کیا