EN हिंदी
وفا کے نام پہ رکھی ہیں تہمتیں کیا کیا | شیح شیری
wafa ke nam pe rakkhi hain tohmaten kya kya

غزل

وفا کے نام پہ رکھی ہیں تہمتیں کیا کیا

خالد یوسف

;

وفا کے نام پہ رکھی ہیں تہمتیں کیا کیا
بگاڑ دی ہیں زمانے نے صورتیں کیا کیا

ہمیں پہ دوش ہے ان کی قضا نمازوں کا
جناب شیخ نے ڈھونڈیں وضاحتیں کیا کیا

بڑے خلوص سے اک شہر گل اجاڑ لیا
ہوئی ہیں اہل نظر سے حماقتیں کیا کیا

فریب سیم و جواہر ہوئے ہیں نام و نمود
خیال یار سے الجھی ہیں ظلمتیں کیا کیا

وہ مہرباں تو نہ تھا پر خلوص بھی نہ رہا
پڑی ہیں غیر کی صحبت میں عادتیں کیا کیا

زبان قاتل و مقتول پر ہے ایک ہی نام
خدا کے نام پہ گزریں قیامتیں کیا کیا

بڑھا کے حلقۂ رنداں کی رنجشیں خالدؔ
ستم گروں نے نکالی ہیں حسرتیں کیا کیا