وفا کے داغ کو دل سے مٹا نہیں سکتا
یہ وہ چراغ ہے طوفاں بجھا نہیں سکتا
مجھے کچھ ایسی پلائی ہے چشم ساقی نے
سرور جس کا کبھی دل سے جا نہیں سکتا
کسی کی چین جبیں کو سمجھ دل مضطر
خفا وہ ہیں کہ تو الفت چھپا نہیں سکتا
قفس قفس ہے گلوں سے سجا کرے صیاد
چمن کا لطف اسیری میں آ نہیں سکتا
کبھی اس اجڑے چمن میں بہار آئے گی
یہ قادریؔ کے گماں میں بھی آ نہیں سکتا

غزل
وفا کے داغ کو دل سے مٹا نہیں سکتا
شاغل قادری