EN हिंदी
وفا کرتے اسے دیکھا نہیں ہے | شیح شیری
wafa karte use dekha nahin hai

غزل

وفا کرتے اسے دیکھا نہیں ہے

ناظم نقوی

;

وفا کرتے اسے دیکھا نہیں ہے
مگر وہ بے وفا لگتا نہیں ہے

دل برباد تجھ کو کیا ہوا ہے
سرائے میں کوئی بستا نہیں ہے

اسے پتھر بنا دیتی ہے دنیا
جو دریا ہے مگر بہتا نہیں ہے

یہ دنیا پھر نمایاں ہو رہی ہے
اندھیرا عمر بھر رہتا نہیں ہے

مرا ہمدرد ہے آئینہ ناظمؔ
میں روتا ہوں تو یہ ہنستا نہیں ہے