EN हिंदी
وفا کا ذکر نہیں ہے کرم کی بات نہیں | شیح شیری
wafa ka zikr nahin hai karam ki baat nahin

غزل

وفا کا ذکر نہیں ہے کرم کی بات نہیں

کویتا کرن

;

وفا کا ذکر نہیں ہے کرم کی بات نہیں
ترے سلوک میں پھر بھی ستم کی بات نہیں

تجھے میں چاہوں یہ میرا نصیب ہے لیکن
اگر تو مجھ کو نہ چاہے تو غم کی بات نہیں

حسین شام جو گزری وہ یادگار بنی
یہ بات ویسے بھی سچ ہے بھرم کی بات نہیں

ہر ایک بات کا میری خدا رہے گا گواہ
ہر اک جنم کی ہے یہ اک جنم کی بات نہیں

غزل وہ کیسی وہ نغمہ ہی کیا رہے گا کرنؔ
ترے کلام میں جب تک صنم کی بات نہیں