وفا کا ذکر نہیں ہے کرم کی بات نہیں
ترے سلوک میں پھر بھی ستم کی بات نہیں
تجھے میں چاہوں یہ میرا نصیب ہے لیکن
اگر تو مجھ کو نہ چاہے تو غم کی بات نہیں
حسین شام جو گزری وہ یادگار بنی
یہ بات ویسے بھی سچ ہے بھرم کی بات نہیں
ہر ایک بات کا میری خدا رہے گا گواہ
ہر اک جنم کی ہے یہ اک جنم کی بات نہیں
غزل وہ کیسی وہ نغمہ ہی کیا رہے گا کرنؔ
ترے کلام میں جب تک صنم کی بات نہیں

غزل
وفا کا ذکر نہیں ہے کرم کی بات نہیں
کویتا کرن