وفا کا شوق یہ کس انتہا میں لے آیا
کچھ اور داغ میں اپنی قبا میں لے آیا
مرے مزاج مرے حوصلے کی بات نہ کر
میں خود چراغ جلا کر ہوا میں لے آیا
دھنک لباس گھٹا زلف دھوپ دھوپ بدن
تمہارا ملنا مجھے کس فضا میں لے آیا
وہ ایک اشک جسے رائیگاں سمجھتے تھے
قبولیت کا شرف وہ دعا میں لے آیا
فلک کو چھوڑ کے ہم در بدر نہ تھے شہبازؔ
زمیں سے ٹوٹنا ہم کو خلا میں لے آیا
غزل
وفا کا شوق یہ کس انتہا میں لے آیا
شہباز خواجہ