EN हिंदी
وفا کا شوق یہ کس انتہا میں لے آیا | شیح شیری
wafa ka shauq ye kis intiha mein le aaya

غزل

وفا کا شوق یہ کس انتہا میں لے آیا

شہباز خواجہ

;

وفا کا شوق یہ کس انتہا میں لے آیا
کچھ اور داغ میں اپنی قبا میں لے آیا

مرے مزاج مرے حوصلے کی بات نہ کر
میں خود چراغ جلا کر ہوا میں لے آیا

دھنک لباس گھٹا زلف دھوپ دھوپ بدن
تمہارا ملنا مجھے کس فضا میں لے آیا

وہ ایک اشک جسے رائیگاں سمجھتے تھے
قبولیت کا شرف وہ دعا میں لے آیا

فلک کو چھوڑ کے ہم در بدر نہ تھے شہبازؔ
زمیں سے ٹوٹنا ہم کو خلا میں لے آیا