وفا کا امتحاں ہے جان و تن کی آزمائش ہے
خدا رکھے خودی کے بانکپن کی آزمائش ہے
بہ طرز نو سجائی جا رہی ہے بزم پرویزی
بہ انداز دگر پھر کوہ کن کی آزمائش ہے
لب جو ساقیا یوں ہی مسلسل دور پیمانہ
کہ زور گردش چرخ کہن کی آزمائش ہے
خزاں کا ذکر کیا وہ دور تھا نا ساز گاری کا
بہار آئی ہے اب اہل چمن کی آزمائش ہے
مری دیوانگی کا امتحاں اک بات ہے ورنہ
حقیقت میں ترے دار و رسن کی آزمائش ہے
طواف کرمک ناداں کا چکر ختم ہے آصفؔ
بس اب ظرف چراغ انجمن کی آزمائش ہے

غزل
وفا کا امتحاں ہے جان و تن کی آزمائش ہے
سلیمان آصف