EN हिंदी
وفا کا بندہ ہوں الفت کا پاسدار ہوں میں | شیح شیری
wafa ka banda hun ulfat ka pasdar hun main

غزل

وفا کا بندہ ہوں الفت کا پاسدار ہوں میں

سائل دہلوی

;

وفا کا بندہ ہوں الفت کا پاسدار ہوں میں
حریف قمری و پروانۂ ہزار ہوں میں

جدا جدا نظر آتی ہے جلوۂ تاثیر
قرار ہو گیا موسیٰ کو بے قرار ہوں میں

خمار جس سے نہ واقف ہو وہ سرور ہیں آپ
سرور جس سے نہ آگاہ ہو وہ خمار ہوں میں

سما گیا ہے یہ سودا عجیب سر میں مرے
کرم کا اہل ستم سے امیدوار ہوں میں

عوض دوا کے دعا دے گیا طبیب مجھے
کہا جو میں نے غم ہجر سے دو چار ہوں میں

شباب کر دیا میرا تباہ الفت نے
خزاں کے ہاتھ کی بوئی ہوئی بہار ہوں میں

قرار داد گریباں ہوئی یہ دامن سے
کہ پرزے پرزے اگر ہو تو تار تار ہوں میں

مرے مزار کو سمجھا نہ جائے ایک مزار
ہزار حسرت و ارماں کا خود مزار ہوں میں

ظہیرؔ و ارشدؔ و غالبؔ کا ہوں جگر گوشہ
جناب داغؔ کا تلمیذ و یادگار ہوں میں

امیر کرتے ہیں عزت مری ہوں وہ سائلؔ
گلوں کے پہلو میں رہتا ہوں ایسا خار ہوں میں