EN हिंदी
واقعہ کوئی تو ہو جاتا سنبھلنے کے لیے | شیح شیری
waqia koi to ho jata sambhalne ke liye

غزل

واقعہ کوئی تو ہو جاتا سنبھلنے کے لیے

زبیر فاروقؔ

;

واقعہ کوئی تو ہو جاتا سنبھلنے کے لیے
راستہ مجھ کو بھی ملتا کوئی چلنے کے لیے

کیوں نہ سوغات سمجھ کر میں اسے کرتا قبول
بھیجتے زہر وہ مجھ کو جو نگلنے کے لیے

اتنی سردی ہے کہ میں بانہوں کی حرارت مانگوں
رت یہ موزوں ہے کہاں گھر سے نکلنے کے لیے

چاہیے کوئی اسے ناز اٹھانے والا
دل تو تیار ہے ہر وقت مچلنے کے لیے

اب تو فاروقؔ اسی حال میں خوش رہتے ہیں
وقت ہے پاس کہاں اپنے بدلنے کے لیے