واں زیرکی پسند نہ ادراک چاہئے
عجز و نیاز دیدۂ نمناک چاہئے
آئینہ بن کہ شاہد و مشہود ایک ہے
اس روئے پاک کو نظر پاک چاہئے
سیر و سلوک جاں نہیں بے جذبۂ نہاں
اس راہ میں یہ توسن چالاک چاہئے
گزرے امید و بیم سے یہ حوصلہ کسے
رند خراب و عارف بے باک چاہئے
ہر چشمہ آئنہ ہے رخ آفتاب کا
ہاں سطح آب بے خس و خاشاک چاہئے
نشو و نمائے سبزہ و گل میں نہیں درنگ
ابر کرم کو تشنگیٔ خاک چاہئے
اصلاح حال عاشق دل خستہ ہے ضرور
معشوق جور پیشہ و سفاک چاہئے
جو عین نائے نوش ہو اس بادہ نوش کو
جام و سبو نہ خمکدہ و تاک چاہئے
صیاد کے اثر پہ رواں ہو تو صید ہے
وہ صید ہی نہیں جسے فتراک چاہئے
غزل
واں زیرکی پسند نہ ادراک چاہئے
اسماعیلؔ میرٹھی