واعظ ملے گی خلد میں کب اس قدر شراب
پانی کے بدلے پیتے ہیں اے بے خبر شراب
آمد میں اس کی مست ہوئے کچھ خبر نہیں
ساقی ہے کون جام کہاں اور کدھر شراب
اس قلزم گناہ میں ڈوبا ہوا ہوں میں
جس میں ہے ایک موجۂ دامان تر شراب
مستی میں ان کو لگ گئی لو اور غیر کی
دینی شب وصال نہ تھی اس قدر شراب
اقرار وصل اور وہ مست غرور ناز
آیا ہے پی کے تو کہیں اے نامہ بر شراب
سالکؔ ملے جو بزم میں اس کی تو لطف ہے
ورنہ پیا ہی کرتے ہیں ہم اپنے گھر شراب
غزل
واعظ ملے گی خلد میں کب اس قدر شراب
قربان علی سالک بیگ