واعظ کی کڑوی باتوں کو کب دھیان میں اپنے لاتے ہیں
یہ رند بلا نوش ایسے ہیں سنتے ہیں اور پی جاتے ہیں
ہم آپ سے جو کچھ کہتے ہیں وہ بالکل جھوٹ غلط اک دم
اور آپ جو کچھ فرماتے ہیں بے شبہ بجا فرماتے ہیں
دیوانہ سمجھ کر چھیڑ کے وہ سنتے ہیں ہماری باتوں کو
ہم مطلب کی کہہ جاتے ہیں وہ سوچ کے کچھ رہ جاتے ہیں
مجبور محبت کی حالت بیگانۂ الفت کیا جانے
ہم غیروں کے طعنے سنتے ہیں اور سن کر چپ رہ جاتے ہیں
گردن ہے جھکی نظریں نیچی اور لب پہ ہے ان کے تبسم بھی
ہے قابل دید وہ شوخی بھی جس وقت کہ وہ شرماتے ہیں
بے ہوش پڑے ہیں عشق میں اور سر ہے کسی کے زانو پر
تدبیریں لاکھ کرے کوئی اب ہوش میں ہم کب آتے ہیں
کام انجمؔ کا جو تمام کیا یہ آپ نے واقعی خوب کیا
کم بخت اسی کے لائق تھا اب آپ عبث پچھتاتے ہیں
غزل
واعظ کی کڑوی باتوں کو کب دھیان میں اپنے لاتے ہیں
انجم مانپوری