واعظ تند خو کو دے بادہ و جام ساقیا
تاکہ وہ ہوش میں کرے تجھ سے کلام ساقیا
سارے خطیب شہر کے تیرے خلاف ہو گئے
تیرا نصیب ہو گئی شہرت عام ساقیا
ہم کو بھی کچھ پتا چلے بزم میں کون کون ہے
آج عطائے جام ہو نام بنام ساقیا
تو نے کہا تو رو دیے تو نے کہا تو ہنس دیے
شہر کے سارے بادہ کش تیرے غلام ساقیا
دشت تجھے دکھائیں گے خاک تری اڑائیں گے
اہل جنوں نے لکھ لیا تیرا بھی نام ساقیا
ہم نے سنا ہے تیرا بھی چارہ گروں میں نام ہے
تجھ سے پڑے گا ایک دن ہم کو بھی کام ساقیا
دفتر کوتوال میں لکھا ہوا ہے آج کل
تیرا بھی نام ساقیا میرا بھی نام ساقیا
غزل
واعظ تند خو کو دے بادہ و جام ساقیا
ناصر بشیر