EN हिंदी
وعدہ خلاف کتنے ہیں اے رشک ماہ آپ | شیح شیری
wada-KHilaf kitne hain ai rashk-e-mah aap

غزل

وعدہ خلاف کتنے ہیں اے رشک ماہ آپ

ارشد علی خان قلق

;

وعدہ خلاف کتنے ہیں اے رشک ماہ آپ
سچ تو یہ ہے کہ جھوٹوں کے ہیں بادشاہ آپ

دفتر سیاہ کرتے ہیں کیوں کاتب عمل
ہوں مغرب گناہوں کا میں رو سیاہ آپ

ہم سے تو دل میں آپ کے اب تک نہ گھر ہوا
کر لیتے ہیں دلوں میں یہ کس طرح راہ آپ

یہ گہہ بھی کفش خانہ ہے آخر حضور کا
تشریف یاں بھی لایا کریں گاہ گاہ آپ

محشر تلک رہے گا ان آنکھوں کو شوق دید
دیکھیں کہ اب دکھاتے ہیں تا چند راہ آپ

تشبیہ نام آنکھوں کی ہے سوجھنا محال
ساری بیاض کرتے ہیں نا حق سیاہ آپ

کچھ حسن ہی ہیں افسر خوباں نہیں حضور
ہیں ملک آن و ناز کے بھی بادشاہ آپ

عارض ابھی ہیں روپ پہ خط آنے دیجئے
کر لیجئے گا فرق سفید و سیاہ آپ

کیوں اس نے کوئے یار سے باہر نکالے پاؤں
مجنوں ہوا ہے ہاتھ سے اپنے تباہ آپ

کلمہ پڑھے حضور کا دیکھے جو سامری
رکھتے ہیں ایسی سحر کی چشم و نگاہ آپ

سب عاشقوں کے ایک سے ہوتے نہیں چین
کھوٹا کھرا پرکھنے کی رکھیے نگاہ آپ

درماندوں کا ہے کون بجز ان کے دست گیر
اپنے اپاہجوں کو وہ لیں گے نباہ آپ

مجھ رو سیہ کی ہے یہ دعا وقت باز پرس
رکھیے گا اپنے لطف و کرم پر نگاہ آپ

الفت کا کیا یہی ہے نتیجہ جہان میں
عاشق کو قتل کرتے ہیں کیوں بے گناہ آپ

دل دے کے بحر فکر میں ہو غوطہ زن عبث
دریائے عشق کی نہیں پائیں گے تھاہ آپ

عزم سفر تو ملک عدم کا ہے اے قلقؔ
کچھ اپنے ساتھ لے بھی چلے زاد راہ آپ