وعدہ ہے کہ جب روز جزا آئے گا
تو اپنے ہی جلووں میں گھرا آئے گا
تا حشر یوں ہی منتظر دید رہوں
چپکے سے کبھی آ کے بتا، آئے گا
میں نامۂ اعمال کھلا رکھوں گا
رحمت کو تری جوش سوا آئے گا
حسرت گہ عالم میں تمنا کا قدم
الا کی طرف صورت لا آئے گا
خالی بھی تو کر خانۂ دل دنیا سے
اس گھر میں مری جان خدا آئے گا
دریا میں بہت لہر ہیں خوابیدہ ابھی
جاگیں گی تو طوفان بڑا آئے گا
محفل میں سبھی دوست نہیں آتے ہیں
دشمن بھی کوئی دوست نما آئے گا
اب تاب نہ لاؤں گا یہ اندیشہ ہے
منظر جو کوئی ہوش ربا آئے گا
نکلو بھی کبھی سود و زیاں سے ورنہ
کوچے میں ترے کون بھلا آئے گا
غزل
وعدہ ہے کہ جب روز جزا آئے گا
انجم اعظمی