اٹھو یہاں سے کہیں اور جا کے سو جاؤ
یہاں کے شور سے بھاگو کہیں بھی کھو جاؤ
لہو لہو نہ کرو زندگی کے چہرے کو
ستم گروں کی نوازش سے دور ہو جاؤ
کہاں پھرو گے غبار سفر کو ساتھ لیے
متاع درد کو دامن میں لے کے سو جاؤ
کرم کی بھیک کہاں قاتلوں کی بستی میں
بدن کا خول اٹھاؤ لحد میں سو جاؤ
یہ سایہ دار شجر تو فریب دیتے ہیں
خزاں کے ساتھ رہو آندھیوں کے ہو جاؤ
یہ زندگی تو فریبوں کا آئنہ ٹھہری
اب اپنی کھوج میں بھٹکو فرار ہو جاؤ

غزل
اٹھو یہاں سے کہیں اور جا کے سو جاؤ
سریندر پنڈت سوز