EN हिंदी
اٹھئے تو کہاں جائیے جو کچھ ہے یہیں ہے | شیح شیری
uThiye to kahan jaiye jo kuchh hai yahin hai

غزل

اٹھئے تو کہاں جائیے جو کچھ ہے یہیں ہے

سہا مجددی

;

اٹھئے تو کہاں جائیے جو کچھ ہے یہیں ہے
باہر ترے گھر کے تو نہ دنیا ہے نہ دیں ہے

ہم ہیں کہ سر نقش قدم سیکڑوں سجدے
وہ ہے کہ جہاں دیکھیے بس چیں بہ جبیں ہے

صحرا میں پھراتی ہے مجھے خانہ خرابی
یہ ڈھونڈ رہا ہوں کہ مرا گھر بھی یہیں ہے

آتی نہیں نزدیک خیالوں کے یہ دنیا
وہ بزم بھی یا رب کوئی فردوس بریں ہے

تا حد تخیل فقط اک جلوہ ہے یا دل
دنیا میں ہماری نہ فلک ہے نہ زمیں ہے

جی بھر کے ذرا دیکھ تو لیں حسن کے جلوے
پھر کس کو انہیں چھوڑ کے جینے کا یقیں ہے

وہ درد دروں جسم میں یوں پھیل گیا ہے
پڑتا ہے جہاں ہاتھ سمجھتا ہوں یہیں ہے

رہتا ہوں سہاؔ اہل حرم میں بھی نمایاں
ہوتے ہیں اشارے یہ خرابات نشیں ہے