اٹھاؤ سنگ کہ ہم میں سنک بہت ہے ابھی
ہمارے گرم لہو میں نمک بہت ہے ابھی
اتر رہی ہے اگر چاندنی اترنے دے
مہکتی زلف میں تیری چمک بہت ہے ابھی
یہ کل کسی نئے موسم کی فصل کاٹیں گے
سروں میں اہل جنوں کے ٹھنک بہت ہے ابھی
اسے خبر نہیں سورج بھی ڈوب جاتا ہے
حسیں لباس پہ نازاں دھنک بہت ہے ابھی
ہمارے پہلے ہی موسم نے ہم کو توڑ دیا
مگر تمہارے بدن میں لچک بہت ہے ابھی
ہوائے وقت نے جھونکی ہے دھول آنکھوں میں
ہماری آنکھ میں لیکن چمک بہت ہے ابھی
دل اپنا ان کی ہتھیلی پہ رکھ بھی دے انجمؔ
ترے خلوص پہ یاروں کو شک بہت ہے ابھی

غزل
اٹھاؤ سنگ کہ ہم میں سنک بہت ہے ابھی
اشفاق انجم