اٹھا لیتا ہے اپنی ایڑیاں جب ساتھ چلتا ہے
وہ بونا کس قدر میرے قد و قامت سے جلتا ہے
کبھی اپنے وسائل سے نہ بڑھ کر خواہشیں پا لوں
وہ پودا ٹوٹ جاتا ہے جو لا محدود پھلتا ہے
مسافت میں نہیں حاجت اسے چھتنار پیڑوں کی
بیاباں کی دہکتی گود میں جو شخص پلتا ہے
میں اپنے بچپنے میں چھو نہ پایا جن کھلونوں کو
انہی کے واسطے اب میرا بیٹا بھی مچلتا ہے
مری مجبوریاں دیکھو اسے بھی معتبر سمجھوں
جو ہر تقریر میں اپنا لب و لہجہ بدلتا ہے
بدن کے ساتھ میری روح بھی سپراؔ کتھک ناچے
غزل سانچے میں جب کوئی نیا مضمون ڈھلتا ہے
غزل
اٹھا لیتا ہے اپنی ایڑیاں جب ساتھ چلتا ہے
تنویر سپرا