اٹھا بھی دل سے اگر میری چشم تر میں رہا
خدا کا شکر ہے طوفان گھر کا گھر میں رہا
نہ جانے کون سی اس میں کشش تھی پوشیدہ
تمام عمر وہ چہرا مری نظر میں رہا
ستم شعار سے ہم جیتے جی یہ کیوں کہہ دیں
کہ حوصلہ نہ ہمارے دل و جگر میں رہا
نہ روک پاؤں گا ہرگز میں تیری رسوائی
تو اشک بن کے اگر میری چشم تر میں رہا
وہ میری طرح بھی خانہ خراب کیوں رہتا
بنا کے دل کو مرے گھر وہ اپنے گھر میں رہا
فنا کے بعد بھی کی ہے تری قدم بوسی
میں خاک ہو کے بھی تیری ہی رہ گزر میں رہا
گیا جو تاج ملی با کمال درویشی
زمانہ یوں بھی مرے حلقۂ اثر میں رہا
ضرور ہو نہ ہو تو تھا مجھ ہی میں پوشیدہ
یہ ذوق سجدہ ہمیشہ جو سر کے سر میں رہا
گیا جو منزل مقصود تک جو تو دیوانہ
یہ اہل ہوش ہمیشہ اگر مگر میں رہا
ہے احتشامؔ زمانے میں بڑھ کے ایک سے ایک
وہ کون ہے کہ جو یکتا کسی ہنر میں رہا
غزل
اٹھا بھی دل سے اگر میری چشم تر میں رہا
قاضی احتشام بچھرونی