اٹھ گئی اس کی نظر میں جو مقابل سے اٹھا
ورنہ اٹھنے کے لیے غیر بھی محفل سے اٹھا
بیٹھ کر لطف نہ تو سایۂ باطل سے اٹھا
چل کے آرام اٹھانا ہے تو منزل سے اٹھا
آ کے محفل میں تری کون مرے دل سے اٹھا
کوئی اٹھا بھی مری طرح تو مشکل سے اٹھا
ساتھ آتا ہے تو لہروں کے تھپیڑے مت گن
موج سے لطف اٹھانا ہے تو ساحل سے اٹھا
ہاتھ میں جان اٹھانا تو بڑی بات نہیں
کوئی پتھر کوئی کانٹا رہ منزل سے اٹھا
قرب ساحل کے تکبر میں جو کشتی ڈوبی
کوئی چھوٹا سا ببولہ بھی نہ ساحل سے اٹھا
بے دلی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں
جس طرف تجھ کو اٹھانا ہے قدم دل سے اٹھا
وہ جو نووارد الفت ہیں انہیں کیا معلوم
کس لیے آج میں سنگ در قاتل سے اٹھا
شیخ پر ہاتھ اٹھانے کے نہیں ہم قائل
ہاتھ اٹھانے کی جو ٹھانی ہے تو باطل سے اٹھا
آج اس کفر سراپا نے سنوارے گیسو
آج بکھرا ہوا پردہ رخ باطل سے اٹھا
شادؔ اک رہبر مکار سے رہزن اچھا
کوئی نقصان اٹھانا ہے تو جاہل سے اٹھا
غزل
اٹھ گئی اس کی نظر میں جو مقابل سے اٹھا
شاد عارفی