EN हिंदी
اٹھ چکا ہے پڑاؤ خوابوں کا | شیح شیری
uTh chuka hai paDaw KHwabon ka

غزل

اٹھ چکا ہے پڑاؤ خوابوں کا

نور محمد یاس

;

اٹھ چکا ہے پڑاؤ خوابوں کا
ہم ہیں اور سلسلہ سرابوں کا

آگہی ہے صلیب جذبوں کی
زندگی ہے سفر عذابوں کا

فکر یہ ہے سکوں سے رات کٹے
ذکر چلتا ہے انقلابوں کا

شہر اپنا ہرا بھرا اک باغ
چلتے پھرتے ہوئے گلابوں کا

چاندنی کے سبھی چراغوں میں
خون جلتا ہے آفتابوں کا

خواہشوں کا غلام نکلا یاسؔ
شاہزادہ کسی کے خوابوں کا