اٹھ چکا دل مرا زمانے سے
اڑ گیا مرغ آشیانے سے
دیکھ کر دل کو مڑ گئی مژگاں
تیر خالی پڑا نشانے سے
چشم کو نقش پا کروں کیونکر
دور ہو خاک آستانے سے
ہم نے پایا تو یہ صنم پایا
اس خدائی کے کارخانے سے
تیری زنجیر زلف سے نکلے
یہ توقع نہ تھی دوانے سے
اے فغاںؔ درد دل سنوں کب تک
اڑ گئی نیند اس فسانے سے
غزل
اٹھ چکا دل مرا زمانے سے
اشرف علی فغاں