اتر کے دھوپ جب آئے گی شب کے زینے سے
اڑے گی خون کی خوشبو مرے پسینے سے
میں وہ غریب کہ ہوں چند بے صدا الفاظ
ادا ہوئی نہ کوئی بات بھی قرینے سے
گزشتہ رات بہت جھوم کے گھٹا برسی
مگر وہ آگ جو لپٹی ہوئی ہے سینے سے
لہو کا چیختا دریا دھیان میں رکھنا
کسی کی پیاس بجھی ہے نہ اوس پینے سے
وہ سانپ جس کو بہت دور دفن کر آئے
پلٹ نہ آئے کہیں وقت کے دفینے سے
دلوں کو موج بلا راس آ گئی شاید
رہی نہ کوئی شکایت کسی سفینے سے
وجود شعلۂ سیال ہو گیا ہے شمیمؔ
اٹھی ہے آنچ عجب دل کے آبگینے سے
غزل
اتر کے دھوپ جب آئے گی شب کے زینے سے
سید احمد شمیم