EN हिंदी
اسی سے آئے ہیں آشوب آسماں والے | شیح شیری
usi se aae hain aashob aasman wale

غزل

اسی سے آئے ہیں آشوب آسماں والے

ظفر اقبال

;

اسی سے آئے ہیں آشوب آسماں والے
جسے غبار سمجھتے تھے کارواں والے

میں اپنی دھن میں یہاں آندھیاں اٹھاتا ہوں
مگر کہاں وہ مزے خاک آشیاں والے

مجھے دیا نہ کبھی میرے دشمنوں کا پتا
مجھے ہوا سے لڑاتے رہے جہاں والے

مرے سراب تمنا پہ رشک تھا جن کو
بنے ہیں آج وہی بحر بیکراں والے

میں نالہ ہوں مجھے اپنے لبوں سے دور نہ رکھ
مجھی سے زندہ ہے تو میرے جسم و جاں والے

یہ مشت خاک ظفرؔ میرا پیرہن ہی تو ہے
مجھے زمیں سے ڈرائیں نہ کہکشاں والے