اسی کی ذات کو ہے دائماً ثبات و قیام
قدیر و حی و کریم و مہیمن و منعام
بروج بارہ میں لا کر رکھی وہ باریکی
کہ جس کو پہنچے نہ فکرت نہ دانش و اوہام
ادھر فرشتۂ کروبی اور ادھر غلماں
قلم کو لوح پہ بخشی ہے طاقت ارقام
یہ دو ہیں شمس و قمر اور ساتھ ان کے یار
عطارد و زحل و زہرہ مشتری بہرام
جو چاہیں ایک پلک ٹھہریں یہ سو طاقت کیا
پھرا کریں گے یہ آغاز سے لے تا انجام
بشر جو چاہے کہ سمجھے انہیں سو کیا امکاں
ہے یاں فرشتوں کی عاجز عقول اور افہام
نکالے ان سے گل و میوہ شاخ و برگ و بار
سب اس کے لطف و کرم کے ہیں عام یہ انعام
اسی کے باغ سے دل شاد ہو کے کھاتے ہیں
چھہارے کشمش و انجیر و پستہ و بادام
چمک رہا ہے اسی کی یہ قدرتوں کا نور
بہر زماں و بہر ساعت و بہر ہنگام
کہ اس کا شکر کریں شب سے ما بہ روز ادا
اطاعت اس کی بجا لاویں صبح سے تا شام
نظیرؔ نکتہ سمجھ مہر و فضل خالق کو
اسی کے فضل سے دونوں جہاں میں ہے آرام
غزل
اسی کی ذات کو ہے دائماً ثبات و قیام
نظیر اکبرآبادی