EN हिंदी
اسی کے قدموں سے ایک چہرہ نکالنا ہے | شیح شیری
usi ke qadmon se ek chehra nikalna hai

غزل

اسی کے قدموں سے ایک چہرہ نکالنا ہے

اسامہ ذاکر

;

اسی کے قدموں سے ایک چہرہ نکالنا ہے
گرے شجر سے ہوا کا شجرہ نکالنا ہے

میں دیر سے ایک در پہ خالی کھڑا ہوا ہوں
کسی کی مصروفیت میں وقفہ نکالنا ہے

مجھے پہاڑوں کو کھودتے دیکھ کیا رہے ہو
کہیں پہنچنا نہیں ہے رستہ نکالنا ہے

بڑے بڑوں سے اکڑ کے ملتا ہوں آج کل میں
مجھے خداؤں میں ایک بندہ نکالنا ہے

بہت دنوں سے سکون پھیلا ہے زندگی میں
اسی تسلی میں اب اچنبھا نکالنا ہے