اسی کے پیار کو دل سے نکال رکھا ہے
ہمیشہ جس نے ہمارا خیال رکھا ہے
وگرنہ ٹوٹ کے کب کا بکھر گیا ہوتا
خیال یار نے دل کو سنبھال رکھا ہے
مگر ہیں دیدۂ بینا کو ہم سمیٹے ہوئے
ہمارے آگے ہمارا مآل رکھا ہے
چلے بھی آؤ کہ ہم نے دیار غیر میں بھی
سبیل ڈھونڈ لی رستہ نکال رکھا ہے
شکستہ خواب مقدر کہیں نہ بن جائیں
خدائے وقت نے وعدوں پہ ٹال رکھا ہے
ازل کے دن سے مبارکؔ ہواؤں کی زد پر
مرا وجود دیئے کی مثال رکھا ہے
غزل
اسی کے پیار کو دل سے نکال رکھا ہے
مبارک انصاری