EN हिंदी
اسی کے پیار کو دل سے نکال رکھا ہے | شیح شیری
usi ke pyar ko dil se nikal rakkha hai

غزل

اسی کے پیار کو دل سے نکال رکھا ہے

مبارک انصاری

;

اسی کے پیار کو دل سے نکال رکھا ہے
ہمیشہ جس نے ہمارا خیال رکھا ہے

وگرنہ ٹوٹ کے کب کا بکھر گیا ہوتا
خیال یار نے دل کو سنبھال رکھا ہے

مگر ہیں دیدۂ بینا کو ہم سمیٹے ہوئے
ہمارے آگے ہمارا مآل رکھا ہے

چلے بھی آؤ کہ ہم نے دیار غیر میں بھی
سبیل ڈھونڈ لی رستہ نکال رکھا ہے

شکستہ خواب مقدر کہیں نہ بن جائیں
خدائے وقت نے وعدوں پہ ٹال رکھا ہے

ازل کے دن سے مبارکؔ ہواؤں کی زد پر
مرا وجود دیئے کی مثال رکھا ہے