اسی کا جلوۂ زیبا ہے چاندنی کیا ہے
یہ چاند کیا ہے یہ سورج کی روشنی کیا ہے
اسی کے حسن پہ دیتا ہے جان پروانہ
نہیں تو شمع کے شعلوں میں دل کشی کیا ہے
کہاں کا وصل کہاں کا فراق کس کا گلہ
وجود ایک ہی ٹھہرا تو پھر دوئی کیا ہے
کسی پہ راز حقیقت کھلے تو خاک کھلے
جب آدمی نہیں واقف کہ آدمی کیا ہے
جبین شوق ہے اور ان کا آستانہ ہے
جو بندگی یہ نہیں ہے تو بندگی کیا ہے
زبان و دل کے تعلق کا بھی لحاظ رہے
سریرؔ دل کو نہ چھو لے وہ شاعری کیا ہے

غزل
اسی کا جلوۂ زیبا ہے چاندنی کیا ہے
سریر کابری